مہر خبررساں ایجنسی، بین الاقوامی ڈیسک: مشرق وسطی میں جاری کشیدگی، بالخصوص غزہ، لبنان، یمن اور ایران کے ساتھ اسرائیل کی حالیہ محاذ آرائیوں نے ایک اہم سوال کو جنم دیا ہے: کیوں صہیونی حکومت وسیع حملوں، جدید ٹیکنالوجی اور عالمی حمایت کے باوجود خود کو فاتح کے طور پر منوانے سے قاصر ہے؟ اسرائیل اگرچہ مزاحمتی بلاک کو شدید نقصان پہنچانے میں کامیاب ہوا ہے، تاہم وہ جنگ کے بنیادی مقاصد، یعنی مکمل شکست، نفسیاتی غلبہ اور سیاسی فتوحات حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ در حقیقت فلسطینی، لبنانی، ایرانی اور یمنی مزاحمت نے تصادم کو طاقت فرسا، غیرمتوقع اور اسرائیلی برتری کو متزلزل کردیا ہے، جس سے تل ابیب کا عسکری بیانیہ شدید دباؤ کا شکار ہے۔
الجزیرہ چینل نے صہیونی حکومت کی جنگوں میں شکست کے بارے میں ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ غزہ، جو اس جنگ کا مرکز اور وہ محاذ ہے جس نے 7 اکتوبر کو قابض اسرائیلیوں کو ذلت آمیز شکست دی، اور ان کی سلامتی، انٹیلیجنس اور عسکری برتری کے نظریے کو ہلا کر رکھ دیا، اگرچہ مکمل طور پر محاصرے میں ہے اور بیرونی حمایت سے محروم ہے، لیکن القسام بریگیڈز کی قیادت میں مزاحمت نے خود کو حالات سے ہم آہنگ کر لیا ہے، اور بھاری نقصانات کے باوجود اب بھی قابضوں کے خلاف لڑ رہی ہے۔
القسام بریگیڈز نے دشمن کو تھکانے اور بھاری نقصان پہنچانے کی اپنی صلاحیت ثابت کی ہے اور یہاں تک کہ مزید صہیونی فوجیوں کو قیدی بنانے کے لیے اپنی کارروائیوں میں توسیع بھی کی ہے۔ مزاحمت اب بھی قیدیوں کا کارڈ اپنے ہاتھ میں رکھے ہوئے ہے، جو مذاکرات میں اس کا سب سے طاقتور ہتھیار ہے۔
لبنان میں بھی، اگرچہ حزب اللہ کو کچھ نقصان پہنچا ہے، لیکن لبنانی مزاحمت نے ہتھیار نہیں ڈالے۔ اس کے علاوہ، مزاحمت کے نرمی سے بھرپور رویے کے باوجود، ہتھیاروں کی حوالگی کا تصور بھی پیش نہیں کیا گیا۔ لبنان کے صدر جوزف عون اب بھی اس معاملے میں اندرونی مکالمے پر زور دیتے ہیں۔
اسی طرح، حزب اللہ کے رہنماؤں خاص طور پر شیخ نعیم قاسم کے حالیہ بیانات سے بخوبی ظاہر ہوتا ہے کہ حزب اللہ تیزی سے بحالی کی طرف گامزن ہے، اپنے بیشتر نقصانات کی تلافی کرچکی ہے اور کسی بھی ممکنہ تصادم کے لیے تیار ہے۔ یہ اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ حزب اللہ کی موجودہ پوزیشن پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط ہوچکی ہے۔
ایران کے بارے میں الجزیرہ چینل نے لکھا ہے کہ جب تہران نے ابتدائی صدمے پر قابو پایا اور تدریجی جنگ میں داخل ہوا، تو اس نے صہیونی حکومت کے اندرونی محاذ اور اس کے کچھ حساس مراکز کو حیران کن طور پر درستگی کے ساتھ نشانہ بنایا۔ ان حملوں کے نتیجے میں، تہران نے نتن یاہو کو جنگ بندی کی درخواست پر مجبور کر دیا، اور یہ ہرگز اس شخص کا طرز عمل نہیں ہوسکتا جو خود کو فاتح سمجھتا ہو۔
مزید برآں، زیادہ تر تجزیے ظاہر کرتے ہیں کہ ایران کی جوہری تنصیبات کو کوئی سنگین نقصان نہیں پہنچا، اور اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سرگرمیوں کو شاید پہلے سے زیادہ تیزی کے ساتھ دوبارہ شروع کیا جاسکتا ہے۔
چینل نے یمنی محاذ کے بارے میں اپنی رپورٹ میں کہا کہ یمن شاید ان ممالک میں سے ہے جنہیں تل ابیب کے حملوں سے سب سے کم نقصان پہنچا۔ یہ ملک حیرت انگیز طور پر اب بھی فعال اور مؤثر ہے، اور روز بروز اپنے بیانیے کو مضبوط کر رہا ہے۔
الجزیرہ نے آخر میں اس نکتے پر زور دیا ہے کہ اگرچہ صہیونی حکومت مزاحمتی محاذ کو پہنچنے والے نقصانات کو جنگ کا حتمی نتیجہ ظاہر کرنے کی کوشش کررہی ہے، لیکن یہ بالکل درست تجزیہ نہیں۔ جنگ کے نتائج صرف انسانی یا مادی نقصانات پر منحصر نہیں ہوتے، کیونکہ تاریخ نے بارہا ایسے ممالک کو کامیاب ہوتے دیکھا ہے جنہوں نے دشمن سے کہیں زیادہ نقصان برداشت کیا، لیکن آخرکار انہیں شکست دی۔
الجزیرہ کے مطابق، آج ممکن ہے کہ ہم جنگ کے اختتامی ایّام میں ہوں، یا یہ مرحلہ مزید طول پکڑ جائے، لہذا عقل کا تقاضا ہے کہ تمام کوششیں مزاحمتی محاذ کے کارڈز کو مضبوط بنانے، اور صہیونی حکومت پر دباؤ بڑھانے پر مرکوز رہیں۔ اس وقت سب سے ضروری بات یہ ہے کہ استقامت اور موقف کو مضبوط کیا جائے، ورنہ صہیونیوں کے پیدا کردہ انسانی بحران کو وہ ایک تزویراتی فتح میں بدل دیں گے اور یہی وہ چیز ہے جس سے ہر قیمت پر بچنا چاہیے۔
آپ کا تبصرہ